تقویٰ کی حقیقت اور خود کو پہچاننا Reality of Taqwa

 Taqwa ki haqiqat 

 اگر انسان اس کائنات پے غور کرے تو ضرور کہے گا کہ یہ ساری کائنات تقویٰ کی وجہ سے ہی کائم ہے ۔اب سوال ہے کہ کیسے یہ ساری کائنات تقویٰ کی وجہ سے ہی کائم ہے؟ انشاء اللہ آپ کو یہ چھوٹا سا نسخہء پڑھ کے سمجھ میں آ یے گا۔

اگر ہم لفظ تقویٰ کو دیکھ لیں تو اس کے معنی"پرہیز گاری ٫خوف ٫ڈر " آ تے ہیں ۔یہ لفظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے ڈر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ انفال آیت ۲۹ میں فرماتا ہے


اے ایمان والو اگر تم خداترسی (تقویٰ) اختیار کرو گے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی  بہم پہنچا دے گا تمہاری برائیوں کو دور کر دے گا اور مغفرت کرے  گا

اللہ تعالی اس آیت میں تین چیزوں کا ذکر کرتے ہیں 

کسوٹی یعنی اچھے اور برے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت یعنی فر

-کان

-برائیوں کو دور کر دے گا

-مغفرت کر دیں  گے

اللہ تقوی کے بارے میں بہت سارے جگہوں پہ کہتے ہیں مگر ہم یہاں  کچھ ہی کو سبق لینے کے لئے درج کرتے ہیں  

ایک اور جگہ اللہ رب العزت فرماتا ہیں



سورہ طلاق آیت نمبر 2-3


جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرے گا اور اسے وہاں سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہوں

اس آیت میں اللہ نے دو چیزیں بیان کی ہیں

مشکلات کا حل

رزق وہاں سے جہاں گمان نہ کیا ہو

ہم نے  بس کچھ ہی آیتیں  آپ کے سامنے پیش کی لیکن قرآ ن پاک میں بہت سارے جگہوں پر تقوی کی تلقین کی گئی ہے

اب ہم اگر اپنے گرہبان  کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم تقوی کو گہری طریقے سے سمجھ سکتے ہیں

پہلی خرابی جو ہم میں عام ہے وہ ہے فخر جتانا اگر ہمیں کسی چیز سے اللہ نے نوازا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس کا شکر ادا کریں لیکن شکر ادا کرنے کے بجائے ہم فخر کرنے لگتے ہیں



اللہ تعالی سورہ مدثر آیت تین میں فرماتے ہیں

اور رب کی بڑائی کو بیان کرو 

یہ ان 6 آ یتوں میں سے ہے جو سورہ العلق کے بعد سب سے پہلے نازل ہوئیں اس کا معنی یہ ہے کہ "

اور اپنے رب کی بڑائی کو بیان کرو"

اللہ تعالیٰ کی بڑھائ کو بیان کرنے کی ضرورت تھی اسی لیے یہ پہلے نازل ہوئی لیکن ہم فخر میں مبتلا

18سورہ لقمان آیت  

منہ پھیر کے بات نہ کرو اور دنیا میں آ کڑ کر نہ چل  اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتے اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز پست ر کھ سب  آوازوں میں سے بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

ہم نہ جانے کتنی برائیوں میں پھنس چکے ہیں عیب چینی ان میں سے ایک ہ


اللہ تعالی فرماتے ہیں سورہ اللمزہ آیت 1

تباہی ہے اس شخص کے لئے جو منہ در منہ لوگوں پر طعن اور پیٹھ پیچھے برائیوں کا خوگر ہیں؛

اگر ہم واقعی  تقویٰ والے ہیں تو کیوں ہمت پیٹھ پیچھے برائیوں کا خو گھر ہیں

یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ہم میں تقوی نہیں ہے

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں الحجرات 12

اے ایمان والو زیادہ گمان نہ کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں  تجسس نہ کرو اور کسی کی غیبت نہ کرو کیاتمہارے اندر ایسا کوئی ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت پسند کرے گا ؟تم خوداس سے گھن کھاتے  ہو اللہ سے ڈرو اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے

تقوی اس چیز کو کہتے ہے جو آپ کو اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کرےہمارے ایمان کی حالت بہت کمزور ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی کمزوریوں کی طرف نگاہ ڈالے

ایک دن دو شخص  باتیں کر رہے تھے ایک نے کہا کہ آج ایک شہرت رکھنے والے نے دین کی دعوت دینا شروع کر دی ہے تو دوسرے نے کہا اس کا دین پکڑنا۔۔۔بہت مشکل۔۔۔کیونکہ عام آدمی میں آج کا دن پکڑ نہ تو کچھ مسئلہ نہیں"

بھائیو یہ کوئی داستان نہیں ہے حقیقت ہے اس میں ہمیں سمجھ آتا ہے کہ دین وہ پکڑتا ہے جو ہر لحاظ سے کمزور ہو یعنی جو دین پکڑے اس کو حقیر سمجھا جاتا ہے اور جو دنیا کے لحاظ سے اچھا ہو اس کا دین سے کیا!


میرے بھائیو یہ وہ کہانی ہے جو میں نے خود ان دو شخصوں سے سنی ہے اور اب میں ایک اور واقعات آپ کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ پیش آیا ہے 

بیماری کی وجہ سے سب کچھ بند ہی  تھا -کوئی کتاب پڑھنے کے لئے نہ تھی میں نے سوچا کہ میں کچھ دینی کتابیں لاووں ۔ قریب کے  دوکاندار کے پاس چلے گئے تو ہم نے ان کو کچھ کتابوں کا نام دیا تو کہا  کیا آپ نے انجینئرنگ ختم کی؟انجینئرنگ اور دین میں کیا وابستہ ہے ۔۔۔! کیا انسان ج انجینئرنگ کے دوران دین نہیں پڑھ سکتا۔۔۔تو۔۔۔ کیوں وہ شخص نے ی انجینئرنگ کو ختم پہلے کیا اور بعد میں دین کو لیا ؟

یہی ہیں ایک واقعہ نہیں بلکہ بہت سارے ایسے واقعات  ہیں جو حیران کن ہے ان شاء اللہ آگے بھی آپ سے شیئر کریں گے 

اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان کر رہا ہے 

الما ئدہ  27



اللہ اس آیت میں مثال دے کر آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کر رہا ہے کہتا ہے کہ جب ہم نے ایک  کی قربانی کو قبول کیا

اور دوسرے کی قربانی کو قبول  نہیں کیا تو دوسرے نے کہا کہ میں تمہیں قتل کروں  گا تو پہلے نے کہا  میں اللہ سے ڈر رہا ہوں

ہم ہیں بشرم اور اللہ نے ہم کو جگہ جگہ فرمایا ہے مجھ سے مانگو مجھ سے مغفرت طلب  کرو اس کا مطلب یہ  ہے کہ اگر اللہ نے دنیا میں اپنے مغفرت کا دائرہ اتنا وسیع ر کھا ہے تو آخرت میں اس کا کتنا سخت عذاب ہوگا اگر ہم کافر رہے!

تو آئیے آج اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ ہم جس حد تک ہو سکے گناہوں سے بچتے رہیں  اب ہمارا ایک سوال ہے کہ ساری کائنات  تقوی کی وجہ سے قائم کیسے ہے ؟ چاند

 میں اللہ کا خوف اگر نہیں ہوتا تو زبردست نظام کی پیروی نہ کرتا جس کی وجہ  سے اس ساری کائنات میں افراتفری مچتی یہ  ہے  تقوی کی حقیقت

اسلام علیکم

لون مسرور 



Post a Comment

0 Comments